Home / Comments  / Articles  / How the Brave Shine During Adversity!

How the Brave Shine During Adversity!

بسم الله الرحمن الرحيم

12 Ramadhan

How the Brave Shine During Adversity!

Bravery is one of the noblest characteristics for the Muslim to acquire, whether he is the advocate of the Khilafah, striving for the resumption of Islam as a way of life, or the sincere officer in the armed forces, granting the Nussrah (Material Support) to secure the return of the Khilafah on the Method of the Prophethood. It is the sign of strength and restoring the dignity of the Ummah which depends on it. Bravery is the quality of those who are strong and neither intimidated by men nor situations, those who are neither weak nor feeble, those who fear neither loss of property nor limb nor even life itself. RasulAllah (saaw) was the first to allay the fears of his charge, through personal bravery. Anas narrated regarding RasulAllah (saaw)

كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَى الصَّوْتِ وَهْوَ يَقُولُ ‏«لَنْ تُرَاعُوا، لَنْ تُرَاعُوا»‏‏

“The Prophet (saaw) was the best among the people (both in shape and character) and was the most generous of them, and was the bravest of them. Once, during the night, the people of Medina got afraid (of a sound). So the people went towards that sound, but the Prophet (saaw) having gone to that sound before them, met them while he was saying,

‏«لَنْ تُرَاعُوا، لَنْ تُرَاعُوا»

“Don’t be afraid, don’t be afraid.’”[Bukhari].

Hizb ut Tahrir/ Wilayah Pakistan

www.hizb-ut-tahrir.info/ur/

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

12 رمضان

مشکلات کے دوران کس طرح بہادر ابھر کر سامنے آتے ہیں! 

           ایک مسلمان کے لیے بہادری  کی صفت حاصل  کرنا قابل عزت صفات میں سے ہے، چاہے وہ خلافت کا داعی ہو ، اسلا می طرز زندگی کے احیاء کے لیے جدوجہد کررہا ہو، یا فوج کا مخلص افسر ہو جو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ دینے والا ہو۔بہادری طاقت کی نشانی ہے اور  امت کے کھوئے ہوئے عزت و مرتبے کو بحال کرنے کا انحصار اسی صفت پر ہے۔ بہادری ان لوگوں کی صفت ہوتی ہے جو مضبوط ہوتے ہیں اور  جو دوسرے لوگوں یا صورتحال سے متاثر نہیں ہوتے، وہ جو کمزور نہیں ہوتے نا ہی تذبذب کا شکار ہوتے ہیں، اور وہ جو مال و دولت اور جان کے جانے سے نہیں ڈرتے۔ ۔ انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،

كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَى الصَّوْتِ وَهْوَ يَقُولُ‏«لَنْ تُرَاعُوا، لَنْ تُرَاعُوا»‏

“رسول اللہ تمام لوگوں میں ( شکل وصورت اور کردار کے لحاظ سے) بہترین تھے اور سب سے بڑھ کر سخی تھے اور سب سے بڑھ کر بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ کے لوگ خوفزدہ ہوگئے (ایک آواز کی وجہ سے)، لہٰذا  لوگ اس آواز کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے لیکن لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جگہ آپﷺ پہنچ چکے تھے اور کہہ رہے تھے: ڈرو مت، ڈرو مت” (بخاری)

حزب التحریر ولایہ پاکستان

www.hizb-ut-tahrir.info/ur/