Home / Comments  / Views on News  / Extrajudicial killings are a result of Democracy which protects the interests of Colonialists

Extrajudicial killings are a result of Democracy which protects the interests of Colonialists

بسم الله الرحمن الرحيم

 News & Comment

Extrajudicial killings are a result of Democracy which protects the interests of Colonialists   

News:

 

         The Supreme Court on Friday, 16th February 2018, issued contempt notice to former Malir, Karachi SSP Rao Anwar as he failed to appear before the apex court despite being granted protective bail in Naqeebullah Mehsud killing case. During the last hearing of a suo motu notice of police shooting that killed the man from Waziristan in Karachi last month, Chief Justice of Pakistan Mian Saqib Nisar had asked Rao Anwar to surrender himself before the apex court on Friday.      

Comment:

         Naqeebullah Mehsud, aged 27, who hailed from Makin, South Waziristan, was killed in Karachi on 16th January 2018 in an alleged police encounter. After the incident SSP Malir Rao Anwar claimed that Naqeebullah was a hardened member of the Pakistani Taliban, who had taken part in several operations targeting security personnel.  But the Police claim was contested by his relatives and friends and his pictures from his facebook account soon become viral which ignited a very strong social media outcry followed by outrage in the mainstream media. Mehsud tribe held a sit-in with the demand of the arrest of Rao Anwar. Initial police inquiry found Rao Anwar guilty of a fake police encounter and recommended his arrest. After this Rao Anwar disappeared from the scene and so far is still at large despite the suo muto action from the Supreme Court of Pakistan.

Rao Anwar is a known “encounter specialist”. He has more than 700 encounters in last 5 years on his “credit” in which almost 450 people were killed according to police record. When Pakistan’s political and military leadership embraced America’s war on terror which is a war against Islam, Rao Anwar became an instrument of this war which was ruthlessly executed against the Pashtun tribes resisting the American occupation of Afghanistan. The irony is that every organ of the state, legislature (Parliament), Executive (government, bureaucracy, police, military, civil and military intelligence) and the Judiciary, were all very well aware about what Rao Anwar and others like him were up to and that he was using the pretext of “fighting terrorism” to justify his killing spree and cover up for his corrupt practices. Yet none of the institutions acted to stop Ran Anwar. This elite consensus on executing the War on Terror exposes the fallacy of the democratic system which claims that the trichotomy of power or the division of power in different state institutions ensures accountability of the rulers and acts as a check against state excesses. 

The idea of trichotomy or division of power acting as a check against rulers and their excesses is actually a flawed idea because a consensus between the elites and their capture of different organs of the state means that power and privilege remains within a small coterie of ruling class which uses this power to enrich itself whereas the masses are left without their rights facing the oppression of the elites who look after each other’s backs as is evident from Rao Anwar’s case.

In the ruling system of Islam, the Khilafah, there is no need of division of power as the Khaleefah, Judiciary, Majlis-i-Ummah and the military as well as other institutions of the state are bound by Islam as only Quran and Sunnah is the law of the land. So even if every organ of the state unites to usurp the rights of the people they can’t do it as they can’t make laws or policies other than Islam. In the Khilafah state there is a special Qazi known as Qazi Mazalim who hears complaints against the Khaleefah and any other ruler or government employee and has the authority to remove even the Khaleefah if it becomes necessary. That is why we see that even the worst of the Khulafah feared Qazis and always based their actions on Fatawas to derive legitimacy from Islam.  Hizb ut-Tahrir has adopted in article 90 for the constitution of the coming Khilafah State, The Court of Injustice Acts (Madhalim) has the right to remove any ruler or civil servant in the State, in the same way that it has the right to remove the Khalifah, if the elimination of the Madhlamah required this removal. Hence any oppression by any of the state employees or rulers is institutionally identified and removed thus protecting the masses from the excesses of the state and the rulers.  

Written for the Central Media Office of Hizb ut-Tahrir by

 Shahzad Shaikh

Deputy to the official Spokesman of Hizb ut-Tahrir in Wilayah Pakistan

END

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خبر اور تبصرہ 

ماورائے عدالت قتل جمہوریت کا شاخسانہ ہے جو استعماری مفادات کا تحفظ کرتی ہے

خبر:

16 فروری 2018 بروز جمعہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ایس ایس پی ملیر کراچی راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جب وہ نقیب اللہ محسود کے مقدمہ قتل میں حفاظتی ضمانت ملنے کے باوجود عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جنوری کے مہینے میں کراچی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت  کے حوالے سے  پچھلی سوموٹو سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار سے یہ کہا تھا کہ وہ جمعہ تک خودکو عدالت کے سامنے پیش کردے۔      

تبصرہ: 

27 سالہ نقیب اللہ محسود، جو جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین سے تعلق رکھتا تھا، کو 16 جنوری 2018 کو کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس واقع کے بعد ایس ایس پی راؤ انوار نے یہ دعوی کیا تھا کہ نقیب اللہ طالبان پاکستان کا رکن تھا جو سیکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد پر حملوں میں ملوث تھا۔ لیکن نقیب اللہ کے خاندان اور دوستوں نے اس دعوی کومکمل طور پر مسترد کردیا  اور جلد ہی اس کی فیس بک  پر تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جس نے اس واقع کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پراور پھر میڈیا میں ایک طوفان برپاکردیا۔  محسود قبیلے نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے دھرنا دیا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیق اور تفتیش میں راؤ انوار کواس جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس کی گرفتاری کی تجویز دی گئی جس کے بعد راؤ انوار منظر سے غائب ہوگیا اور سپریم کورٹ کے سو موٹو ایکشن لینے کے باوجود اب تک  غائب ہے۔ 

راؤ انوار ایک مشہورو معروف “انکاونٹر اسپیشلسٹ” ہے۔  پولیس ریکارڈ کے مطابق اس کے سر پر پچھلے پانچ سال کے دوران 700 سے زائد پولیس مقابلوں میں تقریباً 450 لوگوں کومارنے کا “سہرا” سجا ہے۔ جب پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا قرار دیا، جودرحقیقت اسلام کے خلاف جنگ ہے،  تو راؤ انوار اس جنگ کاآلہ کار بن کر سامنے آیا جسے پختون قبائل کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا گیا جو افغانستان میں امریکی قبضے کی مزاحمت کررہے تھے۔المیہ یہ ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ  یعنی مقننہ (پارلیمنٹ)،  ایگزیکیٹو (حکومت، بیوروکریسی، پولیس، فوج، سول اور فوجی انٹیلی جنس)اور عدلیہ  سب ہی راؤ انوار اور اس جیسے دوسرے کرداروں  اور ان کے “کام”سے بخوبی آگاہ تھے اور یہ کہ وہ “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کا قتل عام اور اپنی  کرپشن اور دیگر جرائم پر پردہ ڈال رہا تھا۔  لیکن اس کے باوجود کسی ادارے  نے راؤ انوار کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اشرافیہ کی جانب سےنام نہاد “دہشت گردی” کے خلاف جنگ  پر عمل درآمد کے حوالے سے اتفاق رائے نے جمہوریت کے نقص کو بے نقاب کردیا  ہےجو یہ دعوی کرتی ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم حکمرانوں کے احتساب کو یقینی بناتی ہے اور ریاستی اداروں کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کا باعث بنتی ہے۔ 

یہ تصور ہی اپنی بنیاد سے غلط ہے کہ اختیارات کی تقسیم حکمرانوں کے اختیارات پر قدغن لگاتی اور ان کے احتساب کا باعث بنتی ہے کیونکہ  اشرافیہ کے درمیان کسی بات پراتفاق ہوجانے اور  اس اشرافیہ کا ریاست کے مختلف اداروں پر کنٹرول  ہونے کی وجہ سے طاقت اور اختیار ایک چھوٹے سے حکمران  گروہ میں محدود  رہتا ہے جو اس طاقت  کو خود کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ عوام  کو ان کے حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہ اشرافیہ کے مظالم کا سامنا  کرتے ہیں  اور اشرافیہ اپنے اراکین کےمفادات کا تحفظ کرتی ہے جیسا کہ راؤ انوار کی مثال سے واضح ہے۔ 

اسلام کے نظام حکمرانی ، خلافت میں  اختیارات کی تقسیم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی  کیونکہ خلیفہ، عدلیہ، مجلس امت اور فوج سمیت ریاست کے تمام ادارے  اسلام کےمطابق   عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں کیونکہ ریاست کا قانون صرف اور صرف قرآن و سنت ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ریاست کے تمام ادارے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے اکٹھے بھی ہونا چاہیں تو وہ نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ اسلام سے ہٹ کر کوئی قانون اور پالیسی بنا ہی نہیں سکتے۔ ریاستِ خلافت میں  ایک خاص قاضی ہوتا ہے جسے قاضی مظالم کہاجاتا ہے جو صرف خلیفہ اور کسی بھی دوسرے حکمران یا ریاستی اہلکار کے خلاف شکایات سنتا ہے اور اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگرشکایت کے خاتمے کے لیے خلیفہ کو برطرف کرنا ضروری سمجھے تو وہ خلیفہ کو اس کے عہدے سے برخاست کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ماضی میں یہ دیکھا کہ بدترین خلفاء بھی قاضیوں سے ڈرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے احکامات کی بنیاد فتویٰ  ہو تا کہ ان کی حکمرانی  اسلامی قوانین  کی پابندہو ۔ حزب التحریر نے نبوت کے طریقے پر آنے والی خلافت کے لیے مرتب کیے گئے آئین کی دفعہ 90میں تحریر کیا ہے کہ، “محکمہ مظالم کو ریاست کے کسی بھی حکمران یاملازم کوبرطرف کرنے کا حق حاصل ہے جیسا کہ خلیفہ کو معزول کرنے کا حق ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب کسی ظلم کے ازالے کا تقاضا ہو”۔           

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ  

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان