Home / Comments  / Views on News  / Raheel-Nawaz Regime Consolidates US Presence in Region and Works to Destroy Resistance Against US Forces

Raheel-Nawaz Regime Consolidates US Presence in Region and Works to Destroy Resistance Against US Forces

بسم الله الرحمن الرحيم

News and Comment

Raheel-Nawaz Regime Consolidates US Presence in Region and Works to Destroy Resistance Against US Forces

 

News:

On 3 May 2015, Afghan officials and Afghan Talban began a two day meeting in Qatar. This meeting was organized by Pugwash Conference group, a non-governmental organization based in Canada. Pakistani Foreign Secretary, Aizaz Ahmed Chaudhry, welcomed the talks and said, “Our message is very clear that they (Taliban) have to talk. If they talk and are able to contribute to peace in Afghanistan, that is the best thing that can happen to us and the whole region,” He further said that Pakistan is determined to improve relations with Afghanistan and is “quietly making dedicated efforts” to push the peace process between Kabul and the Taliban.

Comment:

Since the announcement of a limited US withdrawal by the end of 2014, on 27th March 2009, America has been desperate to bring Afghan Talban to the negotiation table, so she can have a political solution to preserve her colonialist interests in Afghanistan. In 2013 Afghan Talban were allowed to open their office in Doha, Qatar, but just after one month it was closed, ostensibly over a row over placing the flag of Taliban presenting them as state. The US has been applying the concept of carrot and stick to force the Afghan Taliban to accept the US devised peace agreement. The Raheel-Nawaz regime has been instrumental in America’s plan. The regime sometimes facilitates their going abroad from Pakistan to participate in peace talks. At other times the regime is abducting and killing Afghan Taliban leaders in Pakistan, such as the capture of Mullah Mansoor Dadullah from a compound inside Pakistan and the killing Nasiruddin Haqqani, the son of Jalaluddin Haqqani, at Bhara Kahu near Islamabad. As the 2014 withdrawal was approaching with no sign of a peace deal with Afghan Talban, the US ordered Raheel-Nawaz regime to intensify military operations in North Waziristan, the strong hold of the Haqqani network, a source of grave concern to the Americans.

Just after the talks in Qatar, Nawaz and Raheel went to Kabul on 12th May 2015 and criticized the offensive “Operation Azm” by Afghan Taliban. Nawaz Sharif said, “Continuation of such an offensive and attacks will be construed as terrorist acts”. Abdul Qadir Baloch, a retired general, who now serves as Minister for States and Frontier Regions, said, “The Taliban should understand that difficult days are ahead for them. The pressure is coming and they will not have anyone to look to for help. They are to be killed and arrested wherever they are.” It is not surprising that just the next day after their Kabul visit, a horrific killing took place in Karachi in which forty five people from the Ismaili community were killed and the regime exploited it to breathe life into the National Action Plan, which is primarily geared to persecute the sincere Mujahidin who fight against US occupying forces in Afghanistan.

It is very clear that Raheel-Nawaz regime will bend backwards in order to secure US interests in the region. Instead of working to expel America to end the chaos in Pakistan and Afghanistan, which is due to the US presence either in the shape of US forces, CIA or the Raymond Davis Network, the Raheel-Nawaz regime is consolidating the US presence in Afghanistan and destroying resistance against her occupation. It is the duty of a Muslim army to liberate the Muslims lands from the Kafir occupying forces, but the Raheel-Nawaz regime is doing the exact opposite. The Raheel-Nawaz regime is trying to give a false impression that if peace deal is struck between Afghan Taliban and US, we will see an end to violence, but the reality is contrary to it. It is a historical fact that the US presence will never bring peace and stability. It is in the interest of Islam, Muslims, Pakistan and Afghanistan that the US must be kicked out of this region. So the sincere Mujahidin must not succumb to US pressure applied upon it by the Raheel-Nawaz regime. Politicians, Ullema and intellectuals must reject the US sponsored peace talks which are in fact surrender talks. Only after the US expulsion, can Pakistan and Afghanistan have a future of security and stability. However, this can only be done by a sincere leadership which implements Islam. So the sincere amongst the armed forces must extend Nussrah to 000 000 for the establishment of Khilafah. The Khalifah will order Muslim armies and sincere Mujahidins to cleanse Muslims Lands of the US filth. And this is not difficult to do with the help of Allah (swt).

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

“And fight them until there is no more Fitnah and worship is for Allah (Alone)”(Al-Baqara:193)

 

Written for the Central Media Office of Hizb ut Tahrir by

Shahzad Shaikh

Deputy to the Spokesman of Hizb ut Tahrir in Wilayah Pakistan

 

خبر اور تبصرہ

 

راحیل-نواز حکومت خطے میں امریکی موجودگی کو برقرار رکھنے اور امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے کام کررہی ہے

 

خبر: 3 مئی 2015 کو افغان حکام اور افغان طالبان کے درمیان دو روزہ بات چیت کا دور دوہا، قطر میں شروع ہوا۔ یہ ملاقات ایک کنیڈین غیر حکومتی ادارے پگواش کانفرنس گروپ کے تحت منعقد ہوئی۔ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بات چیت کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ “ہمارا پیغام بڑا واضح ہے کہ انہیں (طالبان) کو بات چیت کرنا ہو گی۔ اگر وہ بات چیت کرتے ہیں اور افغانستان میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو یہ ہمارے لئے اور اس پورے خطے کے لئے بہترین عمل ہوگا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم پر قائم ہے اور “خاموشی سے اہم اقدامات کررہا ہے” تا کہ کابل اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھے۔

تبصرہ: 27 مارچ 2009 کو  2014 کے اختتام تک  افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کے اعلان کے بعد سے امریکہ افغان طالبان کو کسی بھی طرح مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کررہا ہے تا کہ وہ افغانستان میں اپنے استعماری مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کئے ایک سیاسی حل نکال سکے۔ 2013 میں افغان طالبان کو دوہا، قطر میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی گئی لیکن صرف ایک مہینے بعد ہی اسے اس اعتراض کے ساتھ بند کردیا گیا کہ وہ اس دفتر میں جھنڈا آویزاں کر کے خود کو ایک ریاست کی شکل میں پیش کررہے ہیں۔  امریکہ افغان طالبان کو اپنے بنائے ہوئے امن معاہدے پر راضی کرنے کے لئے ان کے خلاف “گاجر اور چھڑی”(Carrot and Stick) کے اصول کو استعمال کررہا ہے۔ راحیل-نواز حکومت اس امریکی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہے۔ حکومت کبھی طالبان کو امن مذاکرات میں شرکت کے لئے بیرون ملک جانے میں مدد و معاونت فراہم کرتی ہے  اور کبھی ان کے رہنماؤں کو گرفتار اور قتل کرتی ہے جیسا کہ ملا منصور  داداللہ کی  پاکستان میں ایک گھر  سے گرفتاری  یا بارہ کھوہ اسلام آباد میں جلال الدین حقانی کے بیٹے ناصر الدین حقانی کا قتل۔  جیسے جیسے 2014 قریب آرہا تھا اور امریکہ کو افغان طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوتا نظر نہیں آیا، تو اس نے راحیل-نواز حکومت کو  شمالی وزیرستان میں بھر پور فوجی آپریشن کرنے کا حکم دیا جو کہ امریکیوں کے لئے سب سے خطرناک اور پریشان کن حقانی نیٹ ورک کا مضبوط گڑھ تھا۔

قطر میں ہونے والی بات چیت کے چند ہی دنوں بعد  نواز اور راحیل 12 مئی کو کابل کے دورے پر گئے اور افغان طالبان کی جانب سے شروع کیے جانے والے “آپریشن عزم” کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ نواز شریف نے کہا کہ “اس قسم کے آپریشن اور حملوں کے جاری رہنے کی صورت میں ان اقدامات کو  دہشت گردی سمجھا جائے گا”۔  پاکستان کے وزیر برائے سرحدی علاقاجات، ریٹائر لیفٹنٹ جنرل عبدلقادر بلوچ نے کہا کہ “طالبان کو یہ لازمی سمجھ لینا چاہیے کہ آگے آنے والے دن بہت مشکل ہوں گے۔ دباؤ بڑھ رہا ہے اور کوئی بھی ان کی مدد کرنے والا باقی نہیں رہے گا۔  وہ جہاں بھی ہوں گے، انہیں ماردیا جائے گا یا گرفتار کر لیا جائے گا”۔ یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ کابل کے دورے کے اگلے ہی دن کراچی میں ایک انتہائی خوفناک قتل عام کی واردات ہوتی ہے جس میں پینتالیس آغا خانی برداری کے لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیااور حکومت نے اس سانحے کو نیشنل ایکشن پلان کو مزید تیز کرنے کے لئےاستعمال کیا جس کا بنیادی ہدف ان مخلص مجاہدین کا خاتمہ کرنا ہے جو افغانستان میں امریکی قابض افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ راحیل-نواز حکومت خطے میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام کے خاتمے کے لئے امریکہ کو نکال باہر کیا جاتا کیونکہ اس کی موجودگی ہی،  چاہے وہ اس کی افواج، سی۔آئی۔اے یا ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی شکل میں ہو، عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے لیکن راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کو مستحکم اور اس کی قابض افواج کے  خلاف مزاحمت کے خاتمے کے لئے بھر پور کردار ادا کررہی ہے۔ یہ مسلم افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم علاقوں کو کفار کے قبضے سے آزادی دلائیں لیکن راحیل-نواز حکومت اس کے بالکل برعکس عمل کررہی ہے۔ حکومت یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے  کہ اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہو جاتا ہے تو تشدد کا خاتمہ ہو جائے گا جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ کی موجودگی کبھی بھی امن اور استحکام کا باعث نہیں بنی۔  اسلام، مسلمانوں، پاکستان اور افغانستان کے مفاد میں ہے کہ امریکہ کو اس خطے سے نکال باہر کیا جائے۔ لہٰذا مخلص مجاہدین کو کسی صورت  راحیل-نواز حکومت کے ذریعے ڈالے جانے والے امریکی دباؤ کے سامنے جھکنا نہیں  چاہیے۔ سیاست دانوں، علماء اور دانشوروں کو امریکی  ایماء پر ہونے والی امن  بات چیت کو مسترد کرنا چاہیے کیونکہ یہ درحقیقت ہتھیار ڈالوانے اور شکست تسلیم کروانے کے لئے بات چیت ہورہی ہے۔

صرف امریکہ کو نکال باہر کرنے کے بعد ہی پاکستان اور افغانستان تحفظ اور استحکام پر مبنی   مستقبل کی توقع کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا صرف ایک مخلص قیادت کے تحت ممکن ہے جو اسلام کو نافذ کرے۔  لہٰذا افواج میں موجود مخلص افسران لازمی خلافت کے قیام کے لئےحکو نصرۃ فراہم کریں۔ خلیفہ مسلم افواج اور مخلص مجاہدین کو مسلم سرزمین کو امریکی غلاظت سے پاک کرنے کے لئے حرکت میں آنے کا حکم دے گا اور ایسا کرنا قطعاً مشکل نہیں اگر اللہ سبحانہ و تعالٰی  کی مدد شامل حال ہو۔

 

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

 

“ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالٰی کا دین غالب نہ آجائے(البقرۃ:193)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

 

شہزاد شیخ

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان