Home / Press Releases  / Local PRs  / Pakistan Must Never De-Nuclearize, Even if the Deceiving Hindu State Ever Indicated it Would

Saturday, 24th Dhu al-Qi’dah 1440 AH 27/07/2019 CE No: 1440/72

Press Release

Pakistan Must Never De-Nuclearize, Even if the Deceiving Hindu State Ever Indicated it Would

     Imran Khan has voiced a dangerous commitment regarding our nuclear weapons, which demands rejection, rather than silence so that a treacherous narrative does not become established. On 24 July 2019, Fox News’s Bret Baier asked Imran Khan, “If India said we would give up our nuclear weapons, would Pakistan?” Without hesitation, Imran irresponsibly answered, “Yes because nuclear war is not an option. And between Pakistan and India, the idea of nuclear war is actually self-destruction.” Regarding US concerns over Pakistan’s nuclear capability, Imran Khan reassured the Americans by saying, “We share our intelligence with US about the way we have the safety measures about our nuclear program.” Thus, instead of strong deterrence messaging to our enemies, the regime naively declares readiness for nuclear disarmament, in an environment where there is a global arms race in advanced nuclear and missile capabilities.

      O Muslims of Pakistan and their Strategic Community in Particular!

We must account the regime harshly and demand that it retracts its dangerous stance. Nuclear weapons did not prevent the belligerent India from Cold Start and similar aggressive war operations planning. India is undertaking detailed planning to fight a conventional war under the nuclear over-hang against Pakistan. As for the regime’s hopes in Trump’s mediation with his firm ally, Modi, the post-Pulwama Indian air strikes revealed the extent of the US tilt to India. India’s massive arms buildup is occurring with full US support, as it assists the US in countering China and suppressing Muslims in the region. Alarm bells must also ring at the suspension of missile testing for the last two years, which includes the Bajwa-Imran regime’s first year in power and also the last year of the previous regime it now denounces as being Modi ka Yaar (Friends of Modi). As for the intelligence sharing with the US, an objective of the US presence in Afghanistan, which the regime is facilitating through talks with the Taliban, is to be within striking distance of our nuclear assets and therefore such intelligence sharing on our nuclear weapons program is nothing short of treachery against Islam, Pakistan and Muslims of the region. Allah (swt) said,

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ

Make ready against them all you can of force including steeds of war, to cast terror into the hearts of your enemy and the enemy of Allah and besides those whom you do not know but Allah knows.” [Surah Al-Anfal 8:60].

Our Great Deen mandates the acquisition of cutting edge military capabilities, including nuclear weapons, indigenous space flight capability, stealth technology and artificial intelligence, to deter our enemies. Our nuclear deterrence and shield should not be against the Hindu State alone, but against all our enemies, including the US and the Jewish entity. Our military superiority should not be for rivalry with a single state, but its objective should be to support Islam’s foreign policy of ensuring Islam’s dominance in the world.  It is the Khilafah (Caliphate) on the Method of the Prophethood that will augment our hard earned deterrence capabilities to rid us of the American Raj, unify the Ummah and march firmly on the path of being the world’s leading state, as it was for centuries before.

Media Office of Hizb ut Tahrir in Pakistan

بسم الله الرحمن الرحيم

پریس ریلیز

اگر مکارہندو ریاست ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف پر رضامندی کا اظہار کر بھی دے

تب بھی پاکستان کو  اپنے ایٹمی صلاحیت اور اثاثوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے

 امریکہ میں عمران خان نے ہمارے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق  انتہائی خطرناک بیان دیا جس کو مسترد کیا جانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اگر اس پر خاموشی اختیار کی گئی تو  یہ غدارانہ موقف جڑیں پکڑ سکتا ہے۔ 24 جولائی 2019 کو فوکس نیوز کی اینکر پرسن برٹ بائر نے عمران خان سے پوچھا کہ “اگر بھارت یہ کہہ دے کہ وہ اپنی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے گا تو کیا پاکستان بھی ایسا کرے گا؟”۔ عمران خان نےبغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ غیر ذمہ دارانہ جواب دیا کہ، “جی ہاں، کیونکہ ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔ اور پاکستان اور بھارت کےدرمیان ایٹمی جنگ خود کو تباہ کرنا ہے”۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے متعلق امریکی خدشات پر عمران خان نے دوبارہ امریکا کو یہ کہہ کر یقین دہانی کرائی کہ، “ہم اپنے ایٹمی پروگرام کے حفاظتی اقدامات کے حوالےسے امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرتے  رہتےہیں”۔ بجائے اس کے کہ حکومت دشمن کو یہ پیغام دے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام کس قدر مضبوط اور طاقتور ہے، اس حکومت  نے یہ بے وقوفانہ اعلان کردیا  ہےکہ وہ ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلز کو مزید جدید ترین بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

اے پاکستان کے مسلمانوں اور خصوصاً  اسٹریٹیجک پروگرام سے منسلک افسران!

 ہمیں اس حکومت کا سختی سے احتساب  کرنا چاہیے تا کہ وہ اپنے خطرناک موقف سے دستبردار ہو جائے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار رکھنے  کے باوجود بھارت کولڈ اسٹارٹ  اور اس جیسے دیگر جارحانہ جنگی منصوبے بنانے سے باز نہیں آیا۔ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف روایتی جنگ لڑنے کی تفصیلی منصوبہ بندی کررہا ہے۔  جہاں تک  ٹرمپ  کی اپنے مضبوط اتحادی مودی کے  ساتھ ثالثی  کے حوالے سے حکومت کی امید کا تعلق ہے تو پلوامہ  کے واقع کے بعد ہونے والے بھارتی فضائی حملوں  کے دوران   امریکہ کی بھارت نواز  پالیسی سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ امریکا بھارت کی جانب کس قدر جھک چکا ہے۔ بھارت اپنے اسلحے کے ذخائر میں زبردست اضافہ امریکا کی مکمل آشیر باد سے کررہا  ہے کیونکہ اس طرح بھارت خطے میں چین کی مخالفت اور مسلمانوں کو کچلنے میں امریکا کا معاون ومددگار بن  سکے گا۔ اس بات پر بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنی چاہیے کہ  پاکستان  نےپچھلے دو سال سے میزائل تجربات معطل  کررکھے ہیں جس میں ایک سال باجوہ-عمران حکومت اور ایک سال پچھلی حکومت کا بھی شامل ہے جس  حکومت کو عمران خان  “مودی کا یار” کہا کرتے تھے۔جہاں تک امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کی بات ہے تو امریکا کی افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی ایک وجہ  یہ ہے کہ   امریکا کی فوج ہمارے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہمارے قریب ہی موجود رہے جبکہ یہ حکومت افغانستان میں امریکا کی موجودگی  کو برقرار رکھنے کے لیے افغان امن مذاکرات  میں اس کی مدد کر رہی ہے ۔  ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سےامریکا  کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ  یقیناً اسلام، پاکستان اور خطے کے مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ

” اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔ “(الانفال 8:60)۔

ہمارا عظیم دین ہم پر لازم کرتا ہے کہ ہم جدید ترین فوجی صلاحیت حاصل کریں جس میں ایٹمی ہتھیار، سٹیلتھ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور خلائی  ٹیکنالوجی کی صلاحیت بھی شامل ہے تا کہ ہمارے دشمن ہم سے خوفزدہ رہیں۔ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کا  مقصد صرف ہندو ریاست  ہی کو خوفزدہ رکھنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پروگرام کا مقصد امریکا اور یہودی وجود سمیت تمام دشمنوں کو خوفزدہ کرناہونا چاہیے۔ ہماری فوجی برتری کا مقصد صرف ایک دشمن کا مقابلہ کرنانہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد دنیا میں اسلام کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے اسلام کی خارجہ پالیسی کو مددو معاونت فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ یہ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی ہوگی جو ہماری زبردست فوجی صلاحیتوں کوامریکی راج  سے چھٹکارا حاصل کرنے، امت کو یکجا کرنے اور  خلافت  کودنیا کی صف اول کی ریاست بنانےکے لیے استعمال کرے گی جیسا کہ پہلے وہ صدیوں تک صف اول  کی ریاست  تھی۔     

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس