Home / Press Releases  / Local PRs  / Since the Fall of Our Khilafah on 28 Rajab 1342, what has the Ummah Seen of Good and what has it Suffered of Calamities?!

Since the Fall of Our Khilafah on 28 Rajab 1342, what has the Ummah Seen of Good and what has it Suffered of Calamities?!

Sunday, 21st Rajab 1440 AH 28/03/2019 CE No: 1440/43

Press Release

Since the Fall of Our Khilafah on 28 Rajab 1342,

what has the Ummah Seen of Good and what has it Suffered of Calamities?!

Indeed, since 28 Rajab 1342 AH, corresponding to 3 March 1924 CE, when the Khilafah was destroyed by the British colonialists, with the collaboration of traitors from the Arabs and Turks, the Ummah has seen misery in every aspect of life, in every part of the Muslim World.

The Khilafah, which once provided sanctuary for those who were persecuted because of their beliefs, such as the Jews escaping the Christian’s Spanish Inquisition, is no more and so, the Muslims themselves are fleeing from their war torn lands, whether in Syria or Yemen, risking suffocation and drowning in their rush to escape. The Khilafah, which was the leading state in the world for over a thousand years, with its armies opening new lands to Islam, is no more and so the Muslims find themselves defenseless before aggressing enemies, with the current rulers issuing weightless condemnations, whilst keeping the willing troops chained to their barracks. So what have we seen of good and what have we suffered of calamities, since the fall of our Khilafah?

The Khilafah, whose economy was a shining example for the entire world, is no more and so the Muslims now have their backs broken in hardship and poverty, even though the lion’s share of the world’s resources is found under their very feet. The Khilafah, which had once collected Zakah from an Africa where there was no needy to distribute to, is no more and so Africa and beyond it is stricken by famine and poverty. The Khilafah, which once sent ships laden with food to help the Christians of Ireland, ravaged by famine, is no more and so now Muslims struggle to feed themselves, despite having abundant rivers and fertile agricultural lands. Have we not suffered enough of calamities, since the fall of our Khilafah?

The Khilafah, whose universities were the favored destination in the world for the princes and princesses of Europe and whose Arabic language was a sign of the learned, is no more and so our youth clamber over each other to reach the West for a decent education. And the Khilafah, whose judiciary judged by all that Allah (swt) has revealed for all of its citizens regardless of their position or status, is no more so now Muslims face rampant corruption, whilst the rights of the weak are trampled by the strong. So, really, can we ever expect good, without the restoration of our Khilafah?

Indeed, there can never be any good in the violation of the order of RasulAllah (saaw) and such a violation will only be met with calamities. It is the order of RasulAllah (saaw) that the Muslims give Bay’ah (Pledge of Allegiance) to a single Khaleefah in every era, who would rule them by the Book of Allah (swt) and the Sunnah of RasulAllah (saaw). RasulAllah (saaw) said,

کانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ

“The affairs of Bani Isra’eel were looked after by the Prophets. After a Prophet died, he was succeeded by another Prophet. There is no Prophet after me, but there will be Khulaf’aa. They asked, “What do you order us to do?” He replied, “Give them bay’ah one after another, for Allah will ask them about what He entrusted them with.” (Bukhari).

So is it not time that we all worked to re-establish the Khilafah (Caliphate) on the Method of the Prophethood?

Media Office of Hizb ut Tahrir in Pakistan

پریس ریلیز
28 رجب 1342 ہجری کو خلافت کے خاتمے بعد،

کیا امت نے خیر کا مشاہدہ کیا یا صرف مصائب ہی اس پر پہاڑ کی طرح ٹوٹے !

یقیناً 28 رجب 1342 ہجری بمطابق 3 مارچ 1924کے بعد سے، جب خلافت کو برطانوی استعمار نے عرب اور ترک غداروں کی مدد سے تباہ کردیا، امت نےمسلم دنیاکے ہر حصے میں اور زندگی کے ہر شعبے میں تباہی و بربادی ہی دیکھی ہے۔

آج وہ خلافت نہیں جو کسی زمانے میں ہر اس شخص اور قوم کے لیے پناہ گاہ ہوتی تھی جسے دنیا کے کسی بھی دوسرے علاقے میں اس کے عقیدے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا، جیسا کہ خلافت نے یہود کو پناہ دی جنہیں عیسائی اسپین میں شدید ظلم و ستم کانشانہ بنایا گیا۔ آج اس خلافت کی غیر موجودگی میں خود مسلمان اپنے ہی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں جیسے شام اور یمن میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے مسلمان پناہ حاصل کرنے کے لیے ان ممالک سے کوچ کر رہے ہیں اور اکثر دوران سفر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ریاست خلافت، جو کہ ایک ہزار سال تک ایک عالمی طاقت رہی ، جس کی افواج اسلام کے نفاذ کے لیے نئے نئے علاقے فتح کرتی تھیں، ختم ہوگئی اور پھر مسلمانوں نے خود کو اپنے دشمنوں کے سامنے بے یارو مددگار پایا۔ مسلمانوں پر ایسے حکمران مسلط ہوگئے جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں یا بامشکل ہلکا پھلکا مذمتی بیان جاری کردیتے ہیں لیکن ان مظالم کو روکنے کے لیے امت کی باصلاحیت افواج کو زنجیروں سے جکڑے رکھتے ہیں وہ افواج جو اس امت کو دشمنوں کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے تیار ہیں۔ تو خلافت کے خاتمے کے بعد سے ہم نے کیا اچھا دیکھا ہے اور ہم نے کن کن مشکلات اور مصائب کاسامنا کیا ہے!

خلافت وہ ریاست تھی جس کی معیشت پوری دنیا کے لیے ایک روشن مثال تھی اور پھر اس کے خاتمے کے بعد غربت اور افلاس نے مسلمانوں کی کمر توڑ ڈالی جبکہ دنیا کے عظیم قدرتی وسائل کا بڑا حصہ مسلمانوں کے علاقوں میں موجود ہے۔ خلافت کے تحت افریقہ سے زکوۃ تو جمع کی جاتی تھی لیکن وہاں خوشحالی کا یہ حال تھا کہ کوئی زکوۃ لینے والا نہیں تھا، اور پھر خلافت ختم ہوگئی اور افریقہ غربت و قحط کا شکار ہوگیا۔ خلافت وہ ریاست تھی جس نے خوراک سے لدے بحری جہاز ائرلینڈ کی عیسائی آبادی کے لیے بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہوا، اور پھر وہ خلافت ختم ہوگئی اور مسلمانوں کے لیے خود اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا جبکہ ان کے پاس بے شمار بڑے دریا اور دنیا کی زرخیز ترین زمینیں موجود ہیں۔ کیا خلافت کے خاتمے کے بعد سے ہم نے بہت زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا نہیں کیا!

خلافت وہ ریاست تھی جس کی یونیورسٹیاں یورپ کے شہزادوں اور شہزادیوں کی سب سے پہلی ترجیح ہوتی تھیں۔ اور خلافت کی عربی زبان کایہ مقام تھا کہ جو عربی بولتا تھا اسے پڑھا لکھا اور تہذیب یافتہ سمجھا جاتاتھا ، لیکن پھر وہ خلافت ختم ہوگئی اور ہمارے نوجوان معیاری تعلیم کے لیے مغرب کا سفر کرنے لگے۔ خلافت وہ ریاست تھی جس کی عدلیہ ریاست کے تمام شہریوں کے مقدمات کے فیصلے ،ان کے رتبے اور منصب سے قطع نظر ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر کرتی تھی۔ پھر وہ خلافت ختم ہوگئی اور مسلمانوں نے بےپناہ ظلم دیکھا اور آج ان کے علاقوں میں طاقتور کمزوروں کے حقوق غصب کررہے ہیں۔ تو کیا واقعی ہم خلافت کے دوبارہ قیام کے بغیر کسی خیر کی توقع رکھ سکتے ہیں؟

یقیناً رسول اللہ ﷺکے احکامات سے منہ موڑ کر کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی بلکہ اس کا نتیجہ صرف اورصرف تباہی وبربادی کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم ہے کہ مسلمان ہر دور میں خلیفہ کوبیعت دیں جو ان پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق حکمرانی کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

کانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ

“بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے ۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا’جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے’ بلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔صحابہ نے پوچھا: آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پوراکرو اور انہیں ان کا حق اداکرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا’ جو اُس نے انہیں دی”(بخاری)۔

تو کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم سب نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی بھر پور جدوجہد کریں؟

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس