Home / Press Releases  / Local PRs  / Temporary Appreciation of Rupee Exposes Weakness in Dollar Loan Based Economy

Temporary Appreciation of Rupee Exposes Weakness in Dollar Loan Based Economy

Friday, 13 Jamadi ul Awwal 1435 AH                     14/03/2014 CE                     N0: PR14014

Press Release

Economic progress is not possible unless our currency is based on Gold or Silver

Temporary Appreciation of Rupee Exposes Weakness in Dollar Loan Based Economy

The recent Rupee temporary appreciation confirmed that by pegging Rupee to Dollar, Pakistan’s economy is at the mercy of global Dollar based loans. By altering the dollar supply in the country through loans, speculator hoarding and other means, Pakistan’s currency rises and falls, which effects the prices of everything in the lives of the people of Pakistan. On 12th March 2014, the Finance Minister, Mr. Ishaq Dar admitted that one of the major reasons in the recent gains in the value of Rupee is yet another Dollar based loan, of 1.5 billion Dollars. Such Dollar loans come with the huge cost and sin of Riba (usury), which constantly cripple Pakistan. Yet, the visionless Raheel-Nawaz government is praising itself for the temporary appreciation in the Rupee against the Dollar, which was inevitable when the Dollar supply is increased, by flooding it into the market. By linking Rupee to Dollar, Pakistan’s economy has been enslaved to the Dollar. In order prevent the volatile and violent bouncing around of the local currency, the currency must be backed on gold and silver as Islam as stipulated. This action will free Pakistan from Dollar domination and cut the root cause of inflation.

Like other currencies, the Dollar, the Pound and the Franc, originally, the Rupee was backed by real tangible wealth in the form of a precious metal. This system stabilized the value of the monetary unit both internally within the country and externally in international trade. Today, there is sufficient gold and silver in the world to support the actual economy, transactions such as buying and selling food, clothing, shelter, luxuries, manufacturing machinery and technology and so on. However, due to capitalist practices such as Riba based loans, the demand for the creation of money outstripped the supply of gold and silver. The states abandoned the precious metal standard, so that currency became backed only by the authority over the state, allowing more and more notes to be printed, without being backed fully by gold and silver, such that each new note has less value than previously. Adding to the difficulties of the people, many nations then linked their local currencies to the Dollar. Thus, the rupee that was once worth over eleven grams of silver before the British occupation, after over two hundred years of the capitalist system is now worth around one nine hundredth’s (1/900th) of a gram of silver. Before America’s war on Muslims in Afghanistan and Iraq…, 30.97 Rupees were needed to buy a single US Dollar, and then during the Musharraf-Aziz regime on Friday 15 August 2008 it rose to 76.9 Rupees with inflation in Pakistan at its highest ever in 30 years. And now in March 2014, under the Raheel-Nawaz regime around 100 Rupees are required to buy a single US dollar.

Islam obliges us that Muslims must declare Gold or Silver or both as their currency or issue a currency backed by Gold or Silver. But this order cannot be implemented by a dictator or a democratic ruler, rather it can only be implemented by Khilafah state, because the Khilafah state is bound to implement Islam in all the systems of governance including economics.

Shahzad Shaikh,

Deputy to the Spokesman of Hizb ut-Tahrir in the Wilayah of Pakistan

روپے کو سونے یا چاندی سے منسلک کئے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں

روپے کی قدر میں حالیہ وقتی اضافے نے ڈالر کے قرضوں کی بنیاد پر چلنے والی معیشت کی کمزوری کو واضح کردیا ہے

پچھلے چند دنوں میں روپے کی قدر میں ہونے والے حیرت انگیز اضافے نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کی ہے کہ روپے کا ڈالر سے منسلک ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کی صورتحال ہمیشہ ڈالر کی صورت میں ملنے والے قرضوں  کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ قرضوں، کرنسی مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی ،  ذخیرہ اندوزی اور دوسرے ذرائع سے ملک میں ڈالر کی رسد (سپلائی) کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے پاکستانی روپیہ گرتا اور بڑھتا ہے جس کے نتیجے میں ہر شے کی قیمت  متاثر ہوتی ہے۔ 12 مارچ 2014 کو ایک پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس بات کا اعتراف کیا کہ روپے کی قدر میں حالیہ اضافے کی اہم وجہ ایک بار پھر  1.5ارب ڈالر کا ملنے والا قرضہ ہے۔  اس طرح کے ڈالر میں ملنے والے قرضے نہ صرف انتہائی مہنگے ثابت ہوتے ہیں بلکہ سود کا گناہ عظیم بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت مسلسل مفلوج ہوتی جارہی ہے۔ لیکن بصیرت سے عاری  راحیل۔نواز حکومت اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والے عارضی اضافے پر اپنی تعریفیں کرنے میں مگن ہے جو کہ ڈالر کی رسد بڑھنے کی صورت میں لازمی طور پر ہونا ہی تھا۔  روپے کو ڈالر سے منسلک کرکے پاکستان کی معیشت کو ڈالر کی غلامی میں دے دیا گیا ہے۔ مقامی کرنسی کو اس قسم کے زبردست اتار چڑھاؤ سے بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کرنسی کو لازمی سونے اور چاندی سے منسلک کیا جائے جیسا کہ اسلام نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ عمل پاکستان کو ڈالر کی بالادستی سے نجات دلا دے گا اور افراط زر کے مسئلہ کو  جڑ سے اکھاڑ دے گا۔

ڈالر، پاؤنڈ، فرانک وغیرہ کی مانندپاکستانی روپے کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔  اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری ، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیا ء کی خریدوفروخت کے لیے کرنسی کے طور پردرکار ہے۔  لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کردیا جسے سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کرسکتے تھے۔  ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد کسی قیمتی دھات کی بجائے اس نوٹ کوجاری کرنے والی ریاست کی طاقت پر اعتماد ہوگئی، جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔  اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدرو قیمت رکھتا ہے۔ اس صورتحال نے اکثر لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کردیں اور پھر کئی ممالک نے اپنی کرنسی کو ڈالر کے ساتھ منسلک کردیا۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے 900ویں حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔ عراق اور افغانستان کے مسلمانوں پر امریکی  یلغار  سے قبل ایک ڈالر 30.97روپے کے برابر ہوتا تھا  اور پھر مشرف-عزیز کی حکومت کے دوران 15 اگست 2008 کو یہ بڑھ کر 76.9روپے کے برابر ہوگیا اور اُس وقت پاکستان میں افراط زر کی شرح پچھلے تیس سالوں کی سب سے بلند سطح پر تھی۔ اور اب مارچ 2014 کو راحیل-نواز حکومت کے دور میں ایک ڈالر 100 روپے کے لگ بھگ کا ہوگیا ہے۔

اسلام ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ مسلمان اپنی کرنسی سونے یا چاندی یا دونوں کو قرار دیں  یا پھر ایسی کرنسی جاری کریں جس کی بنیاد سونا یا چاندی ہو۔ لیکن یہ حکم جمہوری یا آمر حکمران نافذ نہیں کرسکتے بلکہ صرف اور صرف مسلمانوں کی ریاست، خلافت ہی نافذ کرسکتی ہے کیونکہ خلافت، ریاست کے تمام معاملات  بشمول مالیاتی اور معاشی نظام میں صرف اور صرف اسلام کو نافذ کرنے کی پابند ہوتی ہے۔

 

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان