Home / Comments  / Articles  / CPEC is not a game changer rather will increase our dependence on foreign States

CPEC is not a game changer rather will increase our dependence on foreign States

بسم الله الرحمن الرحيم

CPEC is not a game changer rather will increase our dependence on foreign States

News:

            On 14th May 2017, Prime Minister Nawaz Sharif on 14 May 2017 said the China-Pakistan Economic Corridor (CPEC) under the One Belt-One Road (OBOR) initiative was open to all countries in the region and that it ‘must not be politicised’.

 

Comment:

            Since the inception of the CPEC (China-Pakistan Economic Corridor), the regime in Pakistan has presented it as a game changer for Pakistan’s economy. Many in Pakistan have been raising objections and refutations of the tall claims of the regime. One of the most common apprehensions about the CPEC is the cost of debt servicing. Pakistan is already indebted to foreign loans to an extent that every year more than one billion is only paid on interests of these foreign loans. It has been common knowledge that in order to pay back the principle amount and the interest on foreign loans, Pakistan has to take more foreign loans. Now with the inclusion of massive loans for the CPEC, foreign debt will increase, as will annual interests payments on this debt. Pakistan will end up paying $90 billion to China over a span of 30 years, against the loan and investment portfolio worth $50 billion under the (CPEC) as estimated by a brokerage house. Topline Securities, in its report, said leading economists have estimated annual average repayments of $3-4 billion per year post fiscal year 2020. “Average annual repayment of CPEC will be $3 billion. {However, in medium term} between fiscal year 2020-25, it will range between $2.0-5.3 billion with average payment of $3.7 billion,” Saad Hashemy, an analyst at the brokerage house, said in a report titled, ‘Pakistan’s External Account Concerns and CPEC Repayment’. So one could easily imagine that whatever economic activity will be generated by CPEC, it will mostly serve the Chinese interests and Pakistan will bear the “fruits” of debt servicing.

One thing which must be clear in our minds is that CPEC is a Chinese brain child not Pakistan’s. China is now a capitalist state and like any other capitalist state, she only seeks her benefit at the cost of weak nations in relations. We must not forget what Chinese investment did in Sri Lanka, when Sri Lanka started to build a port with 300 million dollar Chinese loan in 2008. However, when Sri Lanka struggled to pay back this loan, China ensured its takeover of the Hambantota port and 15,000 acres of land for an accompanying industrial zone. This infuriated the public and the country erupted in protest and political controversy. Sri Lanka responded to the heat by delaying the signing of the port and industrial zone deals, but China’s Ambassador to Sri Lanka, Yi Xianliang, claims that while President Xi Jinping and himself are prepared to exercise patience with Sri Lanka, investors may not be so accommodating.

Nations cannot be built on money, technology and projects from colonialist states. None of todays big industrialist economies become leading economies by opening up their countries to foreign powers, at the cost of local industry and agriculture. They all protected their economy from foreign influence and provided all manner of facilities and concessions to their people. However, once they became big economies, they propagated the mantra of free trade and ending protectionism. Pakistan and the Muslim Ummah can become a leading economic entity of the world if they have sincere leadership implementing Islam comprehensively. And Islam’s economic system provides every opportunity and concession to the Khilafah’s citizens to benefit of the resources of the land, to make their individual and collective economy great, instead of that of foreign powers. And this is not a far-fetched dream because if we had created a state in the past that become the leading state in economy, the Khilafah, then this can be done once again by implementing Islam. So we must not put our trust in foreign powers’ assistance, rather we must trust Islam and establish the Khilafah on the Method of Prophethood, which will implement Islam’s economic system and make us prosper once again.

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلاَ يَضِلُّ وَلاَ يَشْقَىٰ ط وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً

“Then if there comes to you guidance from Me (Allah swt), then whoever follows My Guidance shall neither go astray, nor fall into distress and misery. But whosoever turns away from My Reminder verily, for him is a life of hardship” (Taha:123-124)

Written for the Central Media Office of Hizb ut-Tahrir by

Shahzad Shaikh

Deputy to the official Spokesman of Hizb ut-Tahrir in Wilayah Pakistan

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خبر اور تبصرہ

چین-پاکستان اقتصادی راہداری گیم چینجر(کھیل کی تبدیلی) نہیں ہے بلکہ یہ غیر ممالک پر ہمارے انحصار کو بڑھا دے گا

خبر:

14 مئی 2017 کو وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ون بیلٹ – ون روڈ کے تحت چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ خطے کے تمام ممالک کے لیے کھلا ہے اور اسے’ کسی صورت سیاست زدہ نہیں کرنا چاہیے’۔

تبصرہ:

 جب سے سی پیک کا منصوبہ بنایا گیا ہے پاکستان کی حکومت نے اسے پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر (کھیل کی تبدیل) کے طور پر پیش کیا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگوں نےاس منصوبے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے بلند بانگ دعووں پر اعتراضات اور ان کی تردید کی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے سب سے عام پریشانی اس پر لیے جانے والے قرضوں اور ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان پہلے ہی غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے یہاں تک کہ ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد ان غیر ملکی قرضوں پرسود ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مشہور و معروف بات ہے کہ ان غیر ملکی قرضوں کی اصل رقم اور اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیےپاکستان کو مزید غیر ملکی قرضے حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ اور اب سی پیک کے نام پر لیے جانے والے بھاری قرضوں کی وجہ سے غیر ملکی قرضے اور ان قرضوں پر سالانہ سود کی ادائیگی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ایک بروکریچ ہاوس کے تخمینے کے مطابق پاکستان 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اگلے تیس سالوں میں چین کو 90 ارب ڈالر ادا کرے گا۔ ٹاپ لائن سیکیوریٹیز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اہم معاشی ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2020 کے بعد سالانہ اوسطاً 3 سے 4 ارب ڈالر ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔ “سی پیک پر اوسط سالانہ ادائیگی 3 ارب ڈالر ہو گی۔(درمیانی مدت کے لیے) 2020 سے 2025 کے مالیاتی عرصے میں یہ ادائیگیاں 2 سے 5.3ارب ڈالر یعنی اوسطاً3.7ارب ڈالر سالانہ ہوں گی”، سعد ہاشمی، جو ایک بروکریج ہاوس سے وابستہ ہیں، نے یہ بات ایک رپورٹ میں کہی جس کا عنوان ہے، “پاکستان کے بیرونی اکاونٹ کے حوالے سے خدشات اور سی پیک پر ادائیگیاں”۔ لہٰذا بہت آسانی سے اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ جو بھی معاشی حل چل ہو گی اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا اور پاکستان کے حصے میں زیادہ تر قرضے اتارنے کا “پھل” ہی آئے گا۔

ایک بات ہمارے ذہنوں میں بہت واضح ہونی چاہیے کہ سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی سوچ کا نہیں بلکہ چین کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ چین اب ایک سرمایہ دار ریاست ہے اور کسی بھی دوسری سرمایہ دار ریاست کی طرح چین بھی کمزور ریاستوں کے مفادات کی قربانی کی قیمت پر صرف اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہی کام کرتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ چینی سرمایہ کاری نے سری لنکا میں کیا صورتحال پیدا کردی تھی جب سری لنکا نے 2008 میں 300 ملین ڈالر کی چینی قرضے سے ایک بندرگاہ کی تعمیر شروع کی تھی۔ کچھ عرصے بعد جب سر لنکا کے لئے اس قرضے کو واپس کرنا مشکل ہوگیا تو چین نے اس قرض کے عوض ہمبنٹوٹا (Hambantota) بندرگاہ اور اس سے متعصل صنعتی زون کی 15000 ایکڑ زمین کو اپنی ملکیت میں لینا چاہا۔ اس صورتحال نے سر لنکا کی عوام کو مشتعل کردیا اور ملک میں مظاہرے ہونے شروع ہو گئے۔ سر ی لنکا کی حکومت نے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بندرگاہ اور صنعتی زون کی منتقلی کے معاہدے کو التوا میں ڈال دیا لیکن سر لنکا میں چین کے سفیر نے کہا کہ اگرچہ وہ اور چینی صدر سر لنکا کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ سرمایہ کار اتنے صبر کا مظاہرہ نہ کریں۔

قوموں کی تعمیر استعماری ریاستوں کے پیسوں، ٹیکنالوجی اور منصوبوں پر نہیں ہوسکتی۔ آج کی دنیا کی تمام بڑی صنعتی معیشتیں اس مقام پر اس وجہ سے نہیں پہنچیں کہ انہوں نے اپنے ممالک کے دروازے مقامی صنعت اور زراعت کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر بیرونی طاقتوں کےلیے کھول دیے تھے ۔ ان سب نے اپنی معیشتوں کی بیرونی اثرات سے حفاظت اور اپنے لوگوں کو ہر قسم کی سہولیات اور مراعات فراہم کیں تھیں۔ لیکن جب یہ ایک بار بڑی معیشتیں بن گئی تو انہوں نے آزاد تجارت اور مقامی معیشتوں کی حفاظت کے خاتمے پر زور دینا شروع کردیا۔ پاکستان اور امت مسلمہ دنیا کی ایک بڑی معیشت بن سکتے ہیں اگر ان کے پاس ایک ایسی مخلص قیادت ہو جو اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے۔ اسلام کا معاشی نظام ہر طرح کی سہولیات اور مراعات ریاست خلافت کے شہریوں کو فراہم کرتا ہے کہ وہ ریاست کے وسائل سے مستفید ہو کر اپنی اور ریاست کی معیشت کو عظیم بنائیں ناکہ بیرونی طاقتوں کی معیشتوں کو مضبوط کیا جائے۔ اور ایسا کرنا کوئی خواب نہیں جس کی تعبیر ممکن ہی نہ ہو کیونکہ اگر ہم نے ماضی میں ایک ریاست، خلافت،قائم کی اور وہ معاشی میدان میں دنیا کی صف اول کی معیشت بن گئی تو ایسا ایک بار پھر کیا جاسکتا ہے اگر ہم اسلام کو مکمل طور پر نافذ کریں۔ لہٰذا ہمیں بیرونی طاقتوں کی معاونت پر بھروسہ اور انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ مکمل بھروسہ اور انحصار اسلام پر کرنا چاہیے  اور نبوت کے طریقے پر خلافت کو قائم کرنا چاہیے جو اسلام کا معاشی نظام کرے گی اور ہمیں ایک بار پھر خوشحال بنا دے گی۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلاَ يَضِلُّ وَلاَ يَشْقَىٰ ط وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً

“پھر اگر تمہارے پاس میری (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی) ہدایت پہنچے، تو جس کسی نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ ہی پریشانی و مایوسی کا شکار ہوگا۔ لیکن جس کسی نے میرے(اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے) ذکر (قرآن) سے منہ موڑا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی”(طہ:124-123)

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان