Home / Comments  / Views on News  / America wants negotiations in order to keep its presence in the region

America wants negotiations in order to keep its presence in the region

America wants negotiations in order to keep its presence in the region

Shahzad Shaikh

(Deputy Spokesman of Hizb ut-Tahrir in Pakistan)

Dated: 18 November 2013

Event: On Friday, 1st November 2013 America killed Hakimullah Mehsood, the leader of Taliban faction TTP, through a drone attack. Pakistan’s regime reacted angrily and registered its strong protest against America. Interior Minister Chaudry Nisar Ali Khan termed it an attack on regional peace by America and indicated that Pakistan may review its bilateral ties with the US. Opposition parties across the board also condemned it and placed their support with the government on this issue.

Comment: Apparently the government of Pakistan reacted strongly and its foreign office called the American ambassador to Pakistan, Richard Olson, in order to convey its resentment. This “bold” act of government may have been a pleasant surprise to some that finally our rulers put the interests of this country and its people, ahead of American interests. Or it may in a few have brought expectation that now they are really going to undertake serious steps in order to get out of this American war. However, it must be noticed that the American agents within our political and military leadership only started to talk about giving chance to negotiations for peace, when America announced its desire to talk to the Afghan Taleban and began the negotiations process over its partial withdrawal from Afghanistan in 2014. If the decision to negotiate with the tribal Muslims of Pakistan was purely based on Pakistan’s interest then why did the American agents in our political and military leadership not call for it before the Americans did?

In reality, America know very well that after 2014 whatever plan she has envisaged for Afghanistan, cannot work until the Pashtun Muslims living on both sides of the Durand Line endorse it as well. So, under the cover of limited withdrawal America wants to continue its presence in Afghanistan and Pakistan. It is trying to convince the Pashtun Muslims in Afghanistan that they must accept its plan for Afghanistan after 2014. At the same time America gave permission to her agents in the political and military leadership in Pakistan to start negotiations with the tribal people, in order to get their consent as well on its plan.

However, in order to hide the treachery of her agents in Pakistan and to make them appear as if they are sincere for negotiation, America makes a show of opposing Pakistan’s efforts to establish peace in the country, so that  people think that America is against negotiations and our rulers are defying US instructions, so they must support their government in order to make the American plan fail. This is the double game which America is playing with the Muslims in order to maintain and continue its presence and safeguard its strategic interests.

There can never be peace in Pakistan and Afghanistan until American presence in all forms, whether its forces, intelligence, private security firms, consulates and embassies are eradicated from the region. And this can only happen under a Khaleefa Rashid, who will unify the Muslims, their armies and resources under a single Khilafah state. So the Muslims of this region must strive for the return of the Khilafah on the methodology of Prophethood.

 

امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا انعقاد چاہتا ہے

تحریر: شہزاد شیخ

(پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان)

تاریخ:18نومبر2013

خبر: بروز جمعہ یکم نومبر 2013 کو امریکہ نے تحریک پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔ اس واقع پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس عمل کو خطے کے امن پر ڈرون حملہ قرار دیا اور امریکہ سے پاکستان کے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور اس مسئلے پر حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

تبصرہ: حکومت پاکستان کا بظاہر اس ڈرون حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرنا اور پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے امریکہ سے اس واقع پر شدید احتجاج کرنا شاید لوگوں کے لیے باعث حیرت اور خوشی کا باعث ہو کہ آخر کار ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال آہی گیا اور اب ہمارے حکمران اس امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں نے امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دینے کی بات اس وقت کرنا شروع کی جب امریکہ نے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے نام پر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس مقصد کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں کا پاکستان کے قبائلی مسلمانوں سے مذاکرات کا فیصلہ قطعی اپنا ہوتا تو امن کے لیے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان امریکہ کے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کے اعلان سے قبل کیوں نہ کیا گیا؟

درحقیقت امریکہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ 2014 کے بعد افغانستان کو چلانے کے لیے جو نظام دینا چاہتا ہے جب تک ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے مسلمان پشتون اس کی حمائت نہ کریں ،کسی صورت چل ہی نہیں سکتا۔لہٰذا امریکہ محدود انخلاء کے پردے میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں افغانستان کے مسلمان پشتونوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے وہیں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں اپنے ایجنٹوں کو اس نے پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کو بھی اس امریکی بندوبست پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کی اجازت دی ہے۔

لیکن امریکہ اپنے ایجنٹوں کی غداری کو چھپانے اور ان کے جھوٹے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر پاکستان میں مذاکرات کی مخالفت کررہا ہے تا کہ مسلمان یہ دھوکہ کھا جائیں کہ امریکہ تو مذاکرات کا مخالف ہے اور اب ہمارے حکمران بھی اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں لہٰذا ہمیں ان مذاکرات کی حمائت کرنی چاہیے تا کہ امریکی منصوبے کو ناکام کیا جائے۔ یہ ایک ڈبل گیم ہے جو امریکہ خطے کے مسلمانوں کے ساتھ کھیل رہا ہے تا کہ خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ اور اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔

پاکستان اور افغانستان میں کسی صورت امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک خطے میں امریکہ کی موجودگی کی تمام اشکال کا خاتمہ نہ کردیا جائے چاہے وہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی بندش ہو یا امریکی فوجیوں، انٹیلی جنس اداروں ، نجی سکیورٹی اداروں اور سفارت کاروں کو خطے سے نکال دینا ہو۔ اور یہ صرف خلیفہ راشد ہی کرسکتا ہے جو مسلمانوں کو ، ان کی افواج کو اور ان کے تمام وسائل کو ایک خلافت کے سائے میں یکجا کرے گا ۔ لہٰذا خطے کے مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کرنی چاہیے۔

 

امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا انعقاد چاہتا ہے

تحریر: شہزاد شیخ

(پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان)

تاریخ:18نومبر2013

خبر: بروز جمعہ یکم نومبر 2013 کو امریکہ نے تحریک پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔ اس واقع پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس عمل کو خطے کے امن پر ڈرون حملہ قرار دیا اور امریکہ سے پاکستان کے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور اس مسئلے پر حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

تبصرہ: حکومت پاکستان کا بظاہر اس ڈرون حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرنا اور پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے امریکہ سے اس واقع پر شدید احتجاج کرنا شاید لوگوں کے لیے باعث حیرت اور خوشی کا باعث ہو کہ آخر کار ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال آہی گیا اور اب ہمارے حکمران اس امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں نے امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دینے کی بات اس وقت کرنا شروع کی جب امریکہ نے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے نام پر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس مقصد کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں کا پاکستان کے قبائلی مسلمانوں سے مذاکرات کا فیصلہ قطعی اپنا ہوتا تو امن کے لیے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان امریکہ کے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کے اعلان سے قبل کیوں نہ کیا گیا؟

درحقیقت امریکہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ 2014 کے بعد افغانستان کو چلانے کے لیے جو نظام دینا چاہتا ہے جب تک ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے مسلمان پشتون اس کی حمائت نہ کریں ،کسی صورت چل ہی نہیں سکتا۔لہٰذا امریکہ محدود انخلاء کے پردے میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں افغانستان کے مسلمان پشتونوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے وہیں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں اپنے ایجنٹوں کو اس نے پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کو بھی اس امریکی بندوبست پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کی اجازت دی ہے۔

لیکن امریکہ اپنے ایجنٹوں کی غداری کو چھپانے اور ان کے جھوٹے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر پاکستان میں مذاکرات کی مخالفت کررہا ہے تا کہ مسلمان یہ دھوکہ کھا جائیں کہ امریکہ تو مذاکرات کا مخالف ہے اور اب ہمارے حکمران بھی اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں لہٰذا ہمیں ان مذاکرات کی حمائت کرنی چاہیے تا کہ امریکی منصوبے کو ناکام کیا جائے۔ یہ ایک ڈبل گیم ہے جو امریکہ خطے کے مسلمانوں کے ساتھ کھیل رہا ہے تا کہ خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ اور اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔

پاکستان اور افغانستان میں کسی صورت امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک خطے میں امریکہ کی موجودگی کی تمام اشکال کا خاتمہ نہ کردیا جائے چاہے وہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی بندش ہو یا امریکی فوجیوں، انٹیلی جنس اداروں ، نجی سکیورٹی اداروں اور سفارت کاروں کو خطے سے نکال دینا ہو۔ اور یہ صرف خلیفہ راشد ہی کرسکتا ہے جو مسلمانوں کو ، ان کی افواج کو اور ان کے تمام وسائل کو ایک خلافت کے سائے میں یکجا کرے گا ۔ لہٰذا خطے کے مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کرنی چاہیے۔